Sad Story of Porter Muhammad Hassan on K2 Base Camp

Porter Muhammad Hassan

Sad Story of Porter Muhammad Hassan Died on K2 Base Camp

پاکستانی پورٹر محمد حسن کی زندگی کے آخری چند گھنٹے کیسے کے ٹو پر ایک رسی سے لٹکتے گزرے۔ کیسے تین گھنٹوں تک وہ تڑپتا رہا اور مہذب دنیا کے بڑے بڑے کوہ پیماؤں نے اس کی لاش پر قدم رکھ کر کے ٹو کو سر کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھے جانیوالے غیرملکی کوہ پیمائوں نے محمد حسن کو موت سے لڑتا ہوا چھوڑکر اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ اور ثابت کیا کہ مطلب سے بڑھ کر دنیا میں کوئی شے نہیں ہوتی۔

محمد حسن لیلا پیک کمپنی کا ملازم تھا جو پاکستان میں ایڈونچر ٹورازم کی سب سے بڑی کمپنی مانی جاتی ہے۔ الیکس ابراموف کے سیون سمٹ کلب نے اسے سمٹ پش کے دوران رسی فکس کرنے والوں کی مدد کے لیے ہائیر کیا تھا۔ حسن چونکہ بہت تجربہ کار کوہ پیما نہیں تھا اس لئے اسے ایسے مشن کیلئے منتخب کرنا ایک رسک تھا

Not Enough Equipment for Porter Muhammad Hassan

اس کی نا تجربہ کاری ساتھی ورکرز نے نوٹ کرلی تھیی ،اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس کے ٹو سر کرنے کیلئے مناسب آلات بھی موجود نہیں تھے گویا اسے ناممکن کو ممکن کرنے اور قسمت آزمانے کیلئے کے ٹو بھیجا گیا ہو۔  عینی شاہدین کے مطابق اس کی کمپنی لیلا پیک نے اسے جو سوٹ، کلایئمنگ گئیر اور ماسک مہیا کر رکھا تھا وہ بھی بوسیدہ اور اس مشن کیلئے ناکافی تھا جس وجہ سے اس کے ساتھیوں نے کئی مرتبہ اسے واپس جانے کو کہا

مگر بچارے مزدور کو اپنے پیسے گنوانا اپنی جان گنوانے سے زیادہ قیمتی لگ رہا تھا اور اس نے اپنا مشن جاری رکھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پہلی بار کے ٹو جارہا ہے اور دیگرکوہ پیمائوں کے پاس اس کے ایکویپمنٹ سے ہزار گنا بہتر ایکویپمنٹ موجود ہے اور وہ اول تو کے ٹو سر نہیں کرسکتا اور اگر قسمت نے ساتھ دیا اور کے ٹو سرکربھی لیا تو واپسی کیلئے اس کے اوزار ناکارہ ہوچکے ہونگے لیکن اس کے باوجود اس نے چند روپوں کی خاطر اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالنے کی خاطر یہ رسک مول لیا ۔

Porter Muhammad Hassan

The Summit Day of Porter Muhammad Hassan

27 جولائی کی صبح 2 بجے درجنوں کوہ پیماؤں کی ٹیمیں کے ٹو سر کرنے نکلیں تو محمد حسین اپنی جاب کے مطابق رسی فکس کرنے والوں کی مدد کرنے آگے موجود تھا۔ اس دوران چار مرتبہ چھوٹے برفانی طوفان(Avalanche)  آئے جو ذیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوئے اور تمام ٹیموں نے اپنا مشن جاری رکھا۔

رسی فکس کرنے کے دوران حسن پھسلا اور اس کا O2 ماسک ٹوٹ گیا جو اس کے ساتھیوں کے مطابق غیر معیاری تھا جسے کچھ کوہ پیماؤں بشمول k2 expedition کے لکپا شیرپا اور کیمرہ مین فلپ نے بھی نوٹ کیا۔
آگے چلنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ اگر واقعی ایسی بات ہے تو حسن کی موت کی مکمل ذمہ داری لیلا پیک کمپنی پر عائد ہوتی ہے جس نے ایک نوجوان کو ناکافی سہولیات کے ساتھ موت کے منہ میں دھکیل دیا اور ایک غریب آدمی اپنی روزی کی خاطر اپنی جان پر کھیل گیا۔

The Incident with Porter Muhammad Hassan

اس حادثے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کے حسن گرا ،اسے ایک مرتبہ اُٹھانے کی کوشش کی گئی اس میں جان باقی تھی مگر ہمت نا تھی جس پر اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا اور اس دن درجنوں غیر ملکی کوہ پیماؤں نے کے ٹو سر کیا۔ حسن تین گھنٹے زندہ اس رسی کے ساتھ لٹکتا رہا اس کے بعد نجانے کتنے وقت تک اس کے لاش اس رسی کے ساتھ لٹکتی رہی اور تمام ساتھی اور باقی ٹیمیں اس کی لاش پر سے گزر کر کے ٹو پر اپنے نام کا جھنڈا لہراتے رہے۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب انسانیت کی تذلیل کی گئی حالانکہ کے ٹو پھر بھی کسی دن سرکیاجاسکتاتھا لیکن کوہ پیمائوں نے اپنی محنت بچانے کیلئے محمد حسن کی زندگی کا سودا کیا اوراسے واپس لانے کی بجائے بے یارومددگار چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ کم آکسیجن اور ماسک نہ ہونے کی وجہ سے محمد حسن نے جان جان آفرین کے سپرد کردی۔

Inhuman Behavior with Porter Muhammad Hassan

ضرورت اس بات کی ہے کہ 27 جولائی کو جتنے سمٹ ہوئے اس میں حسن کا نام بھی شامل کرنا چاہیے کیونکہ ذیادہ تر اس کی لاش پر قدم رکھتے ہوئے چوٹی کو سر کرنے تک پہنچے اور حسن کی فیملی کو اس کمپنی سے اس کا جائز حق دلوایا جائے اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمپنیوں کے پورٹرز کا مکمل تحفظ اور سیفٹی سٹینڈرڈز کا ازسرنو جائزہ لیا جانا چاہیئے خود ہزاروں ڈالر لے کر معصوم لوگوں کو چند ہزار کر کس حالت میں موت کی وادیوں میں بھیجا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کے ٹو سمٹ کیلئے اب باہر کی کمپنیاں پورٹرز بھی باہر سے ہی بھجوانے لگی ہیں اور پاکستانی پورٹرز کا روزگار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے لیلیٰ پیک کمپنی کے خلاف  محمد حسن کے قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ اس کے بعد کمپنی کا مکمل سروے کرکے بھرتی افراد کا ریکارڈ چیک کیا جائے کہ جو لوگ اتنے مشکل کام کیلئے بھرتی کئے گئے ہیں کیا وہ اس کے اہل بھی ہیں یا انہوں نے اس مشکل کام کیلئے کوئی تربیت بھی حاصل کی ہے یا نہیں۔

Read Also This Skardu Travel Guide

case should be filed against Company of Porter Muhammad Hassan

اگر کوئی تربیت نہیں تو کمپنی کو اس چیز کا پابند بنایاجائے کہ وہ تمام افراد کی غیرملکی ٹرینرز کے ذریعے تربیت کرے اور ٹریننگ سیشنز میں ان تمام افراد کو جدید سہولیات کی فراہمی کےساتھ ساتھ بہترین پریکٹس کروائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔ محمد حسن کے اہلخانہ کو معاوضے کی ادائیگی بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ انہی اہلخانہ کیلئے محمد حسن نے اپنی زندگی دائو پر لگائی اور غیرملکی کوہ پیمائوں کے کے ٹو سمٹ کیلئے اپنی جان قربان کی۔

غیرملکی کمپنیوں پر بھی فوری طور پر پابندی عائد کی جانی چاہئے تاکہ مقامی پورٹرز کا کاروبار بند نہ ہو اور ان کے گھر کا چولہا بھی جل سکے۔ اگر غیرملکی کمپنیوں کو کاروبار کی اجازت دی بھی جاتی ہے تو انہیں اس بات کا پابند بنایاجائے کہ وہ مقامی افراد میں سے چن کر لوگ بھرتی کریں تاکہ ان کے روزگارکا راستہ بند نہ ہوسکے۔

Please enable JavaScript in your browser to complete this form.
Name
waqartraveladdict@gmail.com

About waqartraveladdict@gmail.com

View all posts by waqartraveladdict@gmail.com →

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *