Khyber Bike Riders Group of Peshawar | Travel the World on Bike
لیون لوگو تھیٹس فروری 1977 کو لندن میں پیدا ہوا، لندن میں پلا بڑھا اور ہوش سنبھالنے کے بعد بروکر کی جاب شروع کردی لیون بچپن سے ہی دنیا گھومنے کے خواب دیکھتا تھا اسلئے بروکر کی نوکری کو جلد ہی اپنے لئے نامناسب اور قید سمجھنے لگا۔

لیون دنیا گھومنے پر مبنی موویز دیکھنے کا بے حد شوقین تھا اور اس شوق نے اسکی زندگی بدل دی۔ بروکر رہ کر وہ دنیا تو کیا لندن بھی نہیں گھوم سکتا تھا اسلئے اس نے نوکری اور لندن دونوں کو چھوڑ کر امریکہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور امریکہ میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کا پلان بنایا۔ لیون چونکہ بیروزگار تھا اسلئے اس نے اپنی پرانی زرد رنگ کی موٹرسائیکل پر سب سے پہلے لاس اینجلس گھومنے کا ارادہ کیا
،بائیک نکالی اسے قابل استعمال بنایا اور لاس اینجلس دیکھنے کیلئے نکل پڑا لیکن کچھ ہی فاصلے پر پیٹرول ختم ہونے اور مزید پیٹرول کیلئے رقم نہ ہونے کے باعث اس کے سفر کو بریک لگ گئی وہ مایوس ہو کر گھر لوٹا،خوابوں کی ٹوکری ایک طرف رکھی اور نوکری کی تلاش میں لگ گیا وقت گزرتا گیا لیکن لیون امریکہ کے آزاد ماحول میں بھی گھٹن محسوس کرتا رہا کیونکہ دنیا دیکھنے کی لگن اس کے اندر پنپ رہی تھی۔
Khyber Bike Riders Group of Peshawar
اور پھر قدرت نے لیون پر مہربانی کی ،لیون کو ( دی موٹرسائیکل ڈائریز) مووی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور اس مووی نے اسکی مایوسی کو جذبے میں بدل کر اسکے اندر پلتی کونپل کو تناور درخت بنادیا۔ یہاں سے اس کی زندگی کا سب سے بہترین وقت شروع ہوگیا اور اس نے تمام تر رکائوٹوں ، تنقید اور مشکلات کو نظرانداز کرکے دنیا کے سفر کی ٹھان لی۔ اس پختہ ارادے کے نتیجے میں آج لیون دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنی پرانی بائیک پر گھوم چکا ہے
اور ایک ٹی وی پروگرام کا ہوسٹ، اپنے سفرناموں کا مصنف ہونے کے علاوہ ہرسال 20 ممالک کا سفر بھی کرتا ہے۔ اے آر وائی نے لیون لوگوتھیٹس جیسی سوچ رکھنے والے جوانوں کا ایک گروپ پشاور میں بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو اپنی موٹرسائیکلوں پر دنیا تو نہیں البتہ پورا پاکستان گھومنے کا شوق ضرور رکھتے ہیں۔ ملئے پشاور کے5 رکنی بائیکرز گروپ سے جو کہ اپنی موٹرسائیکلوں پر پاکستان کےمتعدد پرخطرلیکن پرفضا مقامات،طلسماتی حسن رکھنے والی جنت نظیر وادیوں،سرسبز و شاداب سحر
انگیز جنگلوں، تھکا دینے والے پہاڑی راستوں اوردلفریب مناظر سے بھرپور دودراز علاقوں کا سفر کرنے کا جنون رکھتے ہیں۔
ایڈونچر کے شوقین دوست اسماعیل عرف سنی، غیور، شاہد ،کلیم اور راجہ پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور اب تک کئی ہزار کلو میٹر کا سفر اپنی موٹرسائیکلوں پر طے کرکے کمراٹ، مری، نتھیا گلی، ناران، کاغان، جھیل سیف الملوک، بابو سر ٹاپ،وادی استور، راما جھیل، برزل ٹاپ، گلگت بلتستان، دیوسائی نیشنل پارک، سکردو ،شگر، سرد ریگستان، منٹوکا آبشار، پاک چین بارڈر، طورخم ، لنڈی کوتل، سوات، مالم جبہ اور گبین جبہ دیکھ چکے ہیں گروپ کے ایک رکن غیور نے بتایا کہ پاکستان کے تقریباً تمام خوبصورت مقامات دیکھ چکے ہیں لیکن
Khyber Bike Riders Group of Peshawar
شیوسر جھیل دیوسائی ،منی مرگ ریمبو لیک اور عطا آباد جھیل کی خوبصورتی بیان کرنے کیلئے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان سیاحت کے حوالے سے مالامال ملک ہے اور خوش قسمتی سے اب غیر ملکی سیاح بھی ان علاقوں کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں جو کہ پاکستان کے مثبت امیج کو دنیا میں اجاگر کرنے کیلئے انتہائی خوش آئند ہے انہوں نے بتایا کہ ایک برطانوی شہری نے بھی ہمارے ساتھ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی موٹر سائیکل پر سیر کیلئے ہمارا گروپ جائن کرنے کی درخواست کی ہے اور جلد ہی اسے بھی پاکستان کی خوبصورت وادیوں میں گھمانے کیلئے دعوت دینگے۔ لیون اور پشاور کے بائیکرز گروپ میں یہ بات تو مشترک ہے کہ یہ دوپہیوں پر ناممکن کو ممکن بنانے کے شوقین ہیں
Khyber Bike Riders Group of Peshawar
لیکن جہاں تک لیون کی بات ہے تو لیون اخراجات نہ ہونے کے باعث چندے پر سفر کرتا تھا اور راستے میں ملنے والے لوگوں کو اپنے سفرنامے سنا کر پیٹرول کیلئے امدادی رقم لیتا تھا جبکہ پشاور کا بائیکر گروپ ایسا نہیں کرتا، یہ گھر سے نکلنے سے قبل مکمل تیاری کرتے ہیں، کھانا، پیٹرول اور دیگر اخراجات اپنی جیب سے ہی کرتے ہیں۔ پشاور کے اس بائیکر گروپ کا سفر تھما نہیں ہے بلکہ مستقبل قریب میں یہ کالام، مہوڈھنڈ، بڑگوئی پاس، جہاز بانڈہ، کٹورا جھیل اور چترال دیکھنے کیلئے بھی پلاننگ کررہے ہیں۔
Khyber Bike Riders Group of Peshawar
لیکن موجودہ ملکی حالات نے جہاں ہرطبقے کو متاثر کیا ہے وہیں یہ گروپ بھی متاثر ہونے سے رہ نہیں سکا،

پیٹرول کی آسمان کی چھوتی قیمتوں نے آہستہ آہستہ ان سے یہ خوشی چھیننا شروع کردی ہے سیاسی بحران کا دیو سیاحت کو نگل گیا ہے ،
ایک زمانہ تھا کہ سوشل میڈیا پر بائیکرز کمیونٹی کی دھوم مچی رہتی تھی ، کوئی ٹوورز کے احوال بتا رہا ہے تو کہیں مختلف ایونٹس منعقد کیئے جا رہے ہیں ، کوئی ایکسپلورر بنا ہوا تو کوئی ابن بطوطہ ، بائیک ریویوز والے گروپس اور چینلز دھڑا دھڑ چل رہے تھے اور بائیکس بھی ، آن لائن پارٹس بیچنے والوں کی بھی بہاریں تھیں ، کوئی ہیلمٹ لے رہا تو کوئی لکی مولی اور دوسرے بڑے برانڈز خرید رہا ،
کہیں بائیکس کی موڈیفیکیشن ہو رہیں ، اور کہیں فل ششکا گروپس ٹوور ،
ملک پاکستان کی سیاحت زوروں پر تھی ، گوروں اور گوریوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا اور روز نئی نئی ٹوورازم کمپنیاں کھل رہی تھیں ،چار دوست کہیں مل بیٹھتے تو آغاز سے اختتام محفل تک بائیکس ، ٹوور ، اور پارٹس پر ہی گفتگو رہتی ،
Khyber Bike Riders Group of Peshawar
اور مزے کی بات کہ ان وقتوں میں سخت سے سخت موسم بھی سہانے لگتے اور مشکل سے مشکل راستے بھی کوئے جاناں کی راہ لگتے ، فطرت کی رعنائیاں عروج پر تھیں ، فوٹو گرافی کا وہ جنون طاری تھا کہ محسوس ہوتا تھا جیسے اکیسویں صدی کے ان عاشقوں کا عشق کسی ہیر ، لیلی ، یا سوہنی سے نہیں بلکہ پہاڑوں ، ویرانوں ، ریگستانوں ، پرانے قلعوں اور مزاروں سے ہے ،
Read Also This Gilgit Baltistan Travel Guide
انکے کیمروں کی آنکھیں کسی مست نگاہ ، الہڑ مٹیار کی بجائے خوبصورت وادیوں ، غروب آفتاب کے وقت سنہری شاموں ، برپوش پہاڑوں ، اور انجان راہوں کے حسن کی متلاشی ہوتی تھیں ،
وقت نے پلٹا کھایا ، ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا تو سیاحت کے تمام بنیادی لوازمات کی قیمتوں نے ایک دم سے ایسی اڑان بھری کہ شوق سیاحت رکھنے والے اس گروپ جیسے سینکڑوں مسافروں کی سٹی گم ہو گئی ، پیٹرول ،موبل آئل ،پارٹس اور بائیکس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے سیاحت کی صنعت مکمل طور پر تباہ و برباد کر کے رکھ دی ہے، سیاحت کے شوقین حضرات کا شوق دھواں ہو گیا ہے ،
نہ بائیکرز نظر آتے ہیں اور نہ وہ ایونٹس ، خدا جانے ملک پر ایسی کونسی بلاوں کے نزول ہوئے ، کیسے آسیبوں نے بسیرا کر لیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری رنگینیاں اور رونقیں ماند پڑ گئیں اور وہ سیاح جو ملک کی وادیاں دریافت کرتے نہیں تھکتے تھے آج قریبی ضلع جانے کیلئے بھی ہزاربارسوچنے پر مجبور ہیں۔