عظیم دیوارِ چین کا سفر: 2,200  سالہ شاندار ورثے کا دورہ

عظیم دیوارِ چین کا سفر: 2,200  سالہ شاندار ورثے کا دورہ

دسمبر 2018 کی سرد ہوا کے جھونکوں کے ساتھ، میں انسانی تاریخ کی سب سے مشہور نشانی عظیم دیوارِ چین پر کھڑا تھا، جو دنیا کے سات عجائبات میں سے دوسرا ہے۔ یہ دیوار پہاڑوں کی بل کھاتی چوٹیوں پر ایک دیو قامت بھورے ربن کی مانند پھیلی ہوئی تھی جہاں ہر آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ایک واچ ٹاور دکھائی دیتا ہے، دور سے یہ منظر کسی دیو ہیکل سانپ کی طرح دکھتا تھا جو پہاڑوں کے بیچ بل کھا رہا ہو۔

اگر آپ دیوارِ چین کی وسعت کا اندازہ لگانا چاہیں تو تصور کریں کہ شمالی قطب سے جنوبی قطب تک فاصلہ تقریباً 20,000 کلومیٹر ہے جبکہ دیوارِ چین 21,196 کلومیٹر طویل ہے۔ یعنی اگر دیوارِ چین کو سیدھا بچھا دیا جائے تو دیوارِ چین پوری دنیا کا چکر لگا سکتی ہے اور پھر بھی کچھ میل بچ جائیں گے۔

دیوارِ چین کی تعمیر کا آغاز 210 قبلِ مسیح میں شہنشاہ چِن شی ہوانگ نے کیا اور یہ سلسلہ 1644 عیسوی تک جاری رہا۔ یعنی تقریباً 2,300 سالوں میں مختلف ادوار، بادشاہوں اور سلطنتوں نے دیوارِ چین کو بڑھایا۔ آج بھی دیوارِ چین کے تقریباً 8,800 کلومیٹر حصے باقی ہیں، دیوارِ چین کی اوسط اونچائی تقریباً 25 فٹ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے

عظیم دیوارِ چین کا سفر: 2,200  سالہ شاندار ورثے کا دورہ

آخر اتنی بڑی دیوار بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

قدیم دور میں چین سات مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا، جن کے اردگرد وسیع گھاس کے میدان تھے۔ ان میدانوں میں خانہ بدوش قبائل گھوڑوں کے ساتھ رہتے تھے جو گرمیوں میں تو آرام سے زندگی گزارتے لیکن سردیوں میں خوراک اور پناہ کی کمی کے باعث چینی علاقوں پر حملہ آور ہوتے۔ ان حملوں میں بستیاں جلا دی جاتیں، لوگ غلام بنا لیے جاتے، اور مویشی چھین لیے جاتے۔

یہ قبائل نہایت چالاک تھے۔ وہ کبھی بیک وقت تمام ریاستوں پر حملہ نہیں کرتے تھے بلکہ ایک وقت میں صرف ایک ریاست کو نشانہ بناتے جس کے باعث دوسری ریاستیں مدد کے لیے نہ آتیں۔ آخرکار ہر ریاست نے اپنی حفاظت کے لیے دفاعی دیواریں بنانا شروع کیں۔ یہ دیواریں گھوڑوں کی چھلانگ کی حد سے بلند رکھی گئیں اور انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر کیا گیا تاکہ دشمن کیلئے دیوار پھلانگنا مشکل ہو۔

دیوار بنیادی طور پر پتھر اور مٹی سے بنی ہوئی ہے۔ ہر پتھر کو اس باریکی سے لگایا گیا کہ نہ گھوڑا نہ سوار اس پر چڑھ سکتا۔ دیوارِ چین کے دونوں جانب گہری کھائیاں ہیں تاکہ چڑھائی مزید مشکل ہو جائے۔ ہر ایک کلومیٹر پر ایک دروازہ بنایا گیا ہے جو دن رات محافظوں سےبھرا رہتا تھا

دیوارِ چین اتنی چوڑی ہے کہ پانچ گھڑ سوار ایک ساتھ چل سکتے ہیں یعنی تقریباً 13 سے 16 فٹ چوڑی۔ ہر 500 میٹر کے فاصلے پر واچ ٹاور موجود ہیں جن میں آگ جلا کر دشمن کی اطلاع دوسرے میناروں تک پہنچائی جاتی تھی۔ ایک مینار میں آگ جلائی جاتی تو پوری دیوارِ چین پر خطرے کا سگنل چند منٹوں میں پہنچ جاتا تھا۔

میری منزل: موتیان یو کا علاقہ

بیجنگ کے قریب موتیان یو سیکشن میری منزل تھا، جو منگ خاندان کے دور میں 1504 میں بنایا گیا تھا۔ یہ دیوارِ چین کا سب سے محفوظ اور قابلِ رسائی حصہ ہے۔ ہمیں کافی چڑھائی طے کرنی پڑی، ہماری بس ہمیں ایک جدید داخلی راستے پر چھوڑ گئی جہاں کیفے، ریسٹورنٹ، اور سووینیئر شاپس موجود تھیں۔

پاسپورٹ چیکنگ کے بعد ہم ایک شٹل پر سوار ہو کر دوسرے اسٹیج تک پہنچے، پھر ایک چھوٹا سا پیدل سفر کیا اور ایک لفٹ کے ذریعے تین منزلہ بلندی پر پہنچے۔ اس کے بعد چیئرلفٹ کے ذریعے ہمیں بلند ترین مقام پر پہنچایا گیا۔ آخری دس سیڑھیاں چڑھ کر ہم عظیم دیوارِ چین کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے۔

موتیان یو کا یہ حصہ نہایت شاندار طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ یہاں 2009 میں امریکی صدر اوباما بھی آئے تھے۔ دیوارِ چین  کے اس حصے پر آپ دونوں اطراف دائیں یا بائیں جا سکتے ہیں۔ دونوں راستوں پر دلکش نظارے، اونچی چڑھائیاں، اور تاریخی ٹاور موجود ہیں۔ ہر ٹاور باریکی سے بنایا گیا تاکہ دشمن کی رفتار سست کی جا سکے۔

ایک ٹاور پر کھڑے ہو کر جب میں نے افق پر نظر ڈالی تو کئی اور ٹاور ایک قطار میں دکھائی دیے۔ یہ منظر قدیم چینی انجینیئرنگ کی حکمتِ عملی کا ثبوت تھا۔

خاموشی، جنگل، اور تاریخ کی آوازیں

میرے پاس چونکہ وقت زیادہ تھا اسلئے میں ساتھیوں سے علیحدہ ہوا اور دیوار چین میں دفن عجائبات کو اپنے اندر جذب کرنے کیلئے دور نکل گیا، دیوار چین چونکہ پہاڑ کی چوٹیوں پر تعمیر کی گئی ہے اسلئے اس پر سفر کرنا آسان نہیں، چوٹیوں پر چلنے سے بے حد تھکاوٹ ہوتی ہے، 15 سے 20 فٹ تک گہرائی اور پھر چڑھائی آپ کو تھکن سے چور کردیتی ہے لیکن نہ جانے دوبارہ اس عجوبے پر کھڑا ہونا نصیب ہو یا نہ ہویہی سوچ لئے میں چلتا رہا

اور ساتھیوں سے بہت دور نکل گیا، میں کسی ایسی جگہ پہنچنا چاہتا تھا جہاں صرف میں اور دیوار چین ہوں، کوئی اور سیاح موجود نہ ہو تاکہ یہ عجوبہ مجھ سے ہم کلام ہو اور میں یہ لمحہ اپنے اندر محفوظ کرلوں، میں چلتا رہا، مجھ سے آگے ایک فرانسیسی جوڑا بہت تندہی سے سارے واچ ٹاور عبور کرتا ہوا جارہا تھا میں ان سے آگے نکلنے کی کوشش میں تھا لیکن وہ مجھ سے بھی زیادہ تیز تھے، بالاخر ایک خوبصورت بلی نے ان کو رک کر تصاویر بنانے پر مجبور کیا اور میں تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اب میں صرف میں تھا، 2200

سال قبل بنایا گیا شاہکار تھا اورمیرے دونوں جانب انتہائی گھنا جنگل تھا۔ میں دیر تک اس منظر کو انجوائے کرتا رہا، سورج اپنی آب و تاب سمیٹ کرآنکھوں سے اوجھل ہورہاتھا، دسمبر کی ٹھنڈی ہوائیں گانوں میں سرگوشیاں کررہی تھیں، میں نے لمبی سانس لی، آنکھیں بند کیں، تصوراتی نقشہ بنایا ، اور 2200 سال پیچھے چلا گیا، میرے سامنے سینکڑوں چینی مزدور دیوار چین کی تعمیر میں مصروف عمل تھے، مزدوروں کے ہتھوڑوں کی آواز ،جنگی حکمت عملی کی سرگوشیاں میرے کانوں میں سنائی دینے لگی،

وہ آپس میں حملہ آوروں سے بچنے کیلئے تجاویز اور آرا کا تبادلہ کررہے تھے، ان کی باتوں کے دوران ایک جانی پہچانی آواز میرے کانوں میں پڑی، یہ آواز میری رنگ ٹون کی تھی جس نے ماضی سے میرا رابطہ منقطع کردیا، میرے ساتھی نے مجھے کال کی کہ اندھیرا ہونےوالا ہے جلدی بتائے گئے پوائنٹ تک پہنچو تاکہ واپسی کا سفر شروع کریں، میں روانہ ہوا، 20 منٹ بعد میں ساتھیوں کے درمیان تھا، گائیڈ نے مجھے خوش آمدید کہا اور دو آپشنز جو پہلے ہی میرے ساتھیوں سے ڈسکس کررکھے تھے ان پر میری رائے جاننا چاہی،

پہلا آپشن تھا واپسی کیلئے شٹل سروس استعمال کی جائے یا دوسرا آپشن ٹوباگان رائیڈ لی جائے، ٹوباگان ایک چھوٹی سی آہنی گاڑی ہے جسے ایک پٹڑی بچھا کر فعال کیا گیا ہے یہ گاڑی ایک بندہ بٹھا کر پہاڑ سے دھکیل دی جاتی ہے جو آپ کو 20 منٹ میں پہاڑکی اونچائی سے نیچے لے آتی ہے۔

اس سفر نے مجھے سکھایا کہ انسان اگر چاہے تو کچھ بھی ممکن بنا سکتا ہے۔ عظیم دیوارِ چین محض ایک تاریخی عمارت نہیں، بلکہ یہ استقامت، حکمت، اور انسانی ہنر کا

ایک ناقابلِ فراموش شاہکار ہے۔

Read This Blog in English

Please enable JavaScript in your browser to complete this form.
Name
waqartraveladdict@gmail.com

About waqartraveladdict@gmail.com

View all posts by waqartraveladdict@gmail.com →

2 Comments on “عظیم دیوارِ چین کا سفر: 2,200  سالہ شاندار ورثے کا دورہ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *